پروگرام ۲۰۱۴ کی تفصیلی رپورٹ
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ اسٹوڈنٹس فار اکیڈمک
اکسیلینس کے زیرِ اہتمام طلبہ مدارس و اسکول، یکہتہ و مضافات کی طرف سے منعقد
انعامی پروگرام بشمول گروپ ڈسکشن نہایت کامیاب رہتے ہوئے مثبت پیغام دیکر اختتام پذیر ہوا۔ سارے ہی پروگاموں
میں خاص طور سے مباحثہ اور گروپ ڈسکشن میں یکہتہ کے علماء، دانشوران، طلبہ اور عوام
کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پروگرام کے
منتظمین کی دو مہینوں کی مسلسل اور ان تحک
کوششیں آخر کار بار آور ہوئیں اور سارے ہی مقابلے بحسن و خوبی انجام پذیر ہوئے۔
پروگرام کی شروعات مسرور شارق کی تلاوت کریم سے ہوئی، اور بارگاہِ رسالت میں عامر نذیر نے نذرانۂ عقیدت
پیش کیا۔ بعد ازاں مولانا منور سلطان ندوی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے پروگرام کے اغراض مقاصد پر روشنی ڈالی اور
مختصرا S4X کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد درج ذیل پروگرام ترتیب کے ساتھ ہوئے۔
(۱) مسابقۂ حفظِ حدیث میں جو کہ بہت ہی مشکل مقابلہ تھا صرف ۵ ہی طلبہ حاضر ہوئے لیکن چونکہ یکہتہ میں یہ اس نوعیت کا پہلا مقابلہ
تھا اس کی خوب سراہنا ہوئی۔ پروگرام کی
صدارت مولانا احمد حسین صاحب مظاہری نے
فرمائی، اور حکم کے فرائض قاری مطیع الرحمن قاسمی، مولانا عبد الغفار ندوی،
اورمفتی شمشاد احمد اشاعتی نے فرمائی، اس
مقابلے میں پوزیشن لانے والوں کی ترتیب اس طرح رہی:پہلی پوزیشن: محمد سعد انور بن جناب انوار عالم قاسمی، کسماردوسری پوزیشن: ضیاء الرحمن بن محمد شاکر، عیدگاہ محلہتیسری پوزیشن: اسد اللہ بن جناب عطاء الرحمن، بشنپور(۲) مقابلۂ خطابت اردو میں کل ۱۰ طلبہ نے حصہ لیا اور
مختلف موضوعات پر بہترین تقریریں پیش کیں
اور اپنی شعلہ بیانی و خوش گفتاری سے سامعین کو
مسحور کیا۔ اس پروگرام کی صدارت مولانا منظور احمد شمسی نے فرمائی، جبکہ حکم کے فرائض قاضی رضوان احمد
مظاہری، حافظ رضوان احمد اشاعتی اور محمد
معراج علی ندوی نے نبھائے۔ اس مقابلے میں
پوزیشن لانے والے اس طرح رہے:پہلی پوزیشن: خطیب اختر بن ماسٹر اشفاق احمد، مغربی محلہدوسری پوزیشن: عبد القادر بن قاسم انصاری، انصاری محلہتیسری پوزیشن: محمد ندیم بن محمد عمیم ، عید گاہ محلہ(۳) مقابلۂ خطابت عربی میں کل ۱۷ طلبہ نے حصہ لیا۔ عربی
خطابت کا یہ پروگرام بھی پہلی بار میں یکہتہ مین منعقد ہو ا تھا۔ عام سامعین گرچہ عربی زبان سے ناواقف تھے
لیکن مقررین کے انداز بیان سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس پروگرام میں مہمانِ خصوصی کے طور پر جناب
مولانا معین احمد ندوی، معتمد تعلیمات
مدرسہ چشمۂ فیض ململ نے شرکت کی اور
طلبہ کے مظاہرے سے بہت متاثر ہوئے۔ پروگرام میں مسندِ صدارت کو قاری مطیع
الرحمن صاحب قاسمی نے زینت بخشی،
اور حکم کی کرسی ظل الرحمن ندوی، مفتی اکرام ندوی اور عارف نثار ندوی نے سنبھالی۔
اس پروگرام میں درج ذیل طلبہ نے پوزیشن حاصل کی:(۱) حسان عمر بن جناب رضوان احمد صاحب، مغربی محلہ(۲) محمد اکرام بن محمد ہیرا، ہوٹل چوک(۳) وسیم اکرم بن جناب خورشید اکرم، مغربی محلہ، یکہتہاوپر کے تینوں
مقابلے ہماری پہلی نشست ۹ تا ۱:۳۰
میں انجام پذیر ہوئے۔ اس نشست کے اختتام
پر جناب قاری مطیع الرحمن صاحب، مولانا منظور احمد شمسی اور محمد مشتاق علی فہمی
اور مہمانِ خصوصی جناب مولانا معین ندوی
صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا۔(۴) ۳:۳۰ بجے سے مقابلۂ
خطابت انگریزی شروع ہوا جو کہ اسکولی بچوں کے لئے خاص تھا۔ اس میں علاقے کے مختلف انگریزی و ہندی اور ارودو میڈیم
اسکولوں میں زیرِ تعلیم ۱۶ طلبہ نے حصہ لیا اور گرچہ اپنے علاقے میں
انگریزی زبان کی تعلیم پر توجہ ابھی بھی زیادہ نہیں ہے لیکن مساہمین نے
بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں سامعین اور گارجیں حضرات کو متاثر کیا
وہیں اس سے انگریزی زبان کے تعلق سے لوگوں میں لچسپی اور موجودہ زمانے میں اس کی اہمیت کا بھی
احساس جاگا۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر بدیع الزماں صاحب
نے فرمائی اور حکم کے فرائض جناب ماسٹر ارشد صاحب، خرم سجاد اور کامران احمد نے نبھائے۔
اس پروگرام میں کامیاب ہونے والے طلبہ کچھ اس طرح رہے:(۱) ولی اللہ بن جناب عطا ء الرحمن صاحب، بشنپور(۲) سعید انور بن جناب شاہد حسین، وسط محلہ یکہتہ(۳) شادان احمد بن جناب رضوان احمد، مغربی محلہ، یکہتہ(۵) ‘مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی: ذمہ دار حکومت یا مسلمان
خود’ کے عنوان سےمباحثہ کا پروگرام
یکھتہ کی عوام کے لئے اپنی نوعیت کا بالکل منفرد پروگرام تھا۔ یہ پروگرام بعد
عصر شروع ہوا اور مغرب کی اذان تک چلا۔ منتظمین و مساہمین تھوڑے تردد اور جھجھک کے شکار تھے لیکن الحمد اللہ یہ پروگرام مساہمین و منتظمین
کی توقع سے بہت زیادہ کامیاب، دلچسپ اور
سامعین کی توجہ اور لطف کا مرکز رہا، عالم یہ تھا کہ ایک راونڈ مقابلہ ختم ہونے کے
بعد ایک ٹیم کے افراد جوش و جذبے میں دوسرے راؤنڈ کے لئے بھی تیار تھے
لیکن مقابلہ ایک راؤنڈ پہ ہی ختم کرنے کا
فیصلہ کیا گیا۔ حکم حضرات کے فیصلے کے مطابق ‘مسلمان خود ذمہ دار’ کو ثابت کرنے
والی ٹیم پہلے نمبر پر رہی لیکن بیسٹ پرفارمر کا خطاب محمد دانش کے نام رہا جو کہ
دوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم سے تھے۔ اس مباحثے کی صدارت ہماری دعوت پرخصوصی طور سے یکہتہ سے تشریف لاکر
جناب نیاز احمد صاحب فرمائی، جبکہ کرسیٔ
عدالت جناب مولانا منظور احمد شمسی، محمد مشتاق علی فہمی اور مولانا منور سلطاں ندوی نے سنبھالی۔ اخیر میں
صدر صاحب نے اپنے تاثرات اور اپنی غزل سے نوازا۔ اس پروگرام کی مکمل رکارڈنگ موجود ہے، ان شاء
اللہ جلد ہی آپ تک پہونچے گی۔
(۶) بعد مغرب ہمارا گروپ ڈسکشن شروع ہوا۔ یہ پروگرام
بھی یکتہ کے لئے بالکل نیا، انوکھا اور اس
طرح کی پہلی کوشش تھی، اس پروگرام کا مقصد یکہتہ کی تعلیمی صورتحال کو سمجھنا،
مسائل کی تشخیص اور حل کی تلاش تھا۔
علاقے کی تعلیمی حالت کو سدھارنے
کی فکر بہت سے لوگ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں،
لیکن یہ فکر انفرادی ہونے کی وجہ سے کسی اقدام کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتی، ارادہ
یہ تھا ایسے ہی کچھ نوجوانوں کو ساتھ لایا جائے اور ان سے بات کی جائے۔ چونکہ ایسے
کسی محدود وقت کے محدود ڈسکشن میں سبھی فکر مند لوگوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا،
ہمارے اس ڈسکشن کے مختصر پینیلسٹ میں صرف چند ہی
ایسے نوجوان تھے جن کے بارے میں ہمیں
علم تھا کہ وہ بھی ہماری طرح کے فکر رکھتے اور اس موضوع سے انہیں دلچسپی ہے ۔ اس
پروگرام کا ایک مقصد یہ بھی تھا اس
پروگرام سے تحریک پاکر ایسے فکر رکھنے والے افراد سامنے آئیں اور اجتماعی
طور سے علاقے کی تعلیمی معیار کو سدھارنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ اس پروگرام کے
تئیں منتظمین میں کچھ اندیشے بھی تھے، لیکن بحمد اللہ یہ پروگرام بغیر کسی
غیر معمولی و ناخوشگوار واقعے کے، فکر و خیال کو مہمیز لگاکر کامیابی کے
ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس ڈسکشن میں بہت
سی باتیں آئیں، ان میں سے کچھ اہم نکات اس
طرح تھے:A.
سب سے ضروری چیز بنیادی تعلیم ہے، اس لئے مدرسہ ہو یا اسکول
بنیادی تعلیم پر توجہ دینا ضروری ہے اور اس کے لئے یا تو نئے ادارے قائم کئے جائیں
یا پھر جو موجودہ ادارے ہیں ان میں بنیادی تعلیم کو بہتر اور معیاری بنایا جائے۔
B.
لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ بہت اہم ہے، اس مسئلے کو حل کرنے
کے لئے جتنی جلدی ہوسکے اقدام کیا جائے۔
C.
بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بہت سے گارجین حضرات کا رویہ افسوس ناک ہے۔ وہ بچوں
پر پیسے تو خرچ کر رہے ہیں لیکن وہ کیا پڑھ رہے ہیں اس پر توجہ نہیں دیتے۔
D. پینیلسٹس نے علاقے کے اس مزاج کی طرف بھی اشارہ کیا لوگ باہر تو خوب خرچ کرتے ہیں لیکن اگر علاقے میں کچھ اس طرح کا انتظام ہوتا ہے تو اس کے تئیں تساہلی برتتے ہیں اور معمولی فیس بھی ادا کرنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
بعد عشاء تقسیم انعامات کا
رنگا رنگ پروگرام تھا جس میں سارے مقابلوں میں اول، دوم، سوم پوزیشن لانے
والے، مباحثے کی اول و دوم پوزیشن پر رہنے
والی ٹیموں کے سبھی افراد اور مباحثے کے بیسٹ پرفارمر کو انعامات سے نوازنے کے
علاوہ سبھی مقابلوں کے تمام مساہمین کو
تشجیعی انعامات سے نوازا گیا۔تقسیمِ انعامات کے بعد جناب مولانا منور سلطان ندوی صاحب نے
اپنے جذبات و احساسات کا اظہار فرمایا،
اور پھر اخیر میں محمد علی اختر ندوی نے کلمات تشکر پیش کیا۔
D. پینیلسٹس نے علاقے کے اس مزاج کی طرف بھی اشارہ کیا لوگ باہر تو خوب خرچ کرتے ہیں لیکن اگر علاقے میں کچھ اس طرح کا انتظام ہوتا ہے تو اس کے تئیں تساہلی برتتے ہیں اور معمولی فیس بھی ادا کرنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
کلمات تشکر
یوں سجا چاند کہ چھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ مہکا مرے ہمراز کا رنگ
حضرات گرامی قدر!اب جبکہ ہمارا یہ کارواں اپنی منزل تک پہونچنے کو ہے، کجاوے
اترنے کو ہیں، چاندنی سمٹ رہی ہے، عروس و فکر و فن اپنے حسن دلآرا کی تابشیں
بکھیرنے کے بعد کاشانۂ جذب و کیف سےگیسوئے
عنبریں سمیٹنے کو آئی ہے۔۔۔۔۔ضروری ہے کہ ہم خوشبوؤں کی قدر کریں، چاندی کا اعتراف
کریں، پھولوں کی ستائش کریں، جگنوؤں کا شکریہ ادا کریں، پروانوں کی وارفتگی کا
احسان مانیں۔جی ہاں ! آپ کی موجودگی و شرکت سے ہی یہ چمن مہکا ہے تو آپ
کی خوشبوؤں کو سلام!ہمارے معزز مہمانان، ہمارے علمائے کرام اور اسکالرس، جنہوں نے ہماری درخواست پر
مسندِ صدارت کو زینت بخش کر یا حکم کے
فرائض نبھاکر ہماری عزت افزائی فرمائی ، ہمارے حوصلوں کو مہمیز اور عزم کو آب و تاب دیا، جن کے وجود کی چاندنی سے یہ
شبستاں دمکا ہے تو آپ کی چاندنی کو سلام!ہمارے بڑے بھائی اور سینیرس، خواہ وہ یہاں ہمارے ساتھ ہوں یا باہر ہوں، جن
کے مشوروں اور رہنمائی کے پھولوں سے یہ گلستاں سجا ہے، تو ان پھولوں کو سلام! ہمارے رفقاء سفر،
برادران عزیز اور دوست و احباب، نئے مستقبل کی کرن، جن کی محنت کے جگنوؤں سے یہ
محفل جگمگائی ہے، جن کی کوششوں سے یہ چمن
بار آور ہوا ہے، ان کی کوششوں اور محنتوں کے جگنوؤں کو سلام!اور اس پروگرام کے اصل پروانے، مختلف مقابلوں کے شرکت کار و
مساہمیں جن کی وارفتگی نے اس پروگرام کو اڑان بخشی، علم و ادب کے گل پوش اسٹیج پر
جن کی حوصلہ مندی اور زور آزمائی، اور جن کی زبان و بیان کی شگفتگی و دلپذیری نے
سامعیں کے دلوں میں جگہ بنائی، ان تمام پروانوں کے حوصلوں اور وارفتگی کو سلام!ہم دل سے شکر گذار ہیں ان تمام حضرات کے جن کی کاوشوں سے،
محنتوں سے، مشوروں سے، راہنمائیوں سے، دلسوزیوں سے، چاہے وہ سطح پر ہوں اور جس
پیمانے کی ہوں یہ پروگرام اپنے اختتام تک بحمد اللہ پہونچا ہے اور یہ کارواں منزل
نشیں ہوا ہے۔ خصوصی طور سے، مولانا مفتی نوشاد احمد ندوی، مولانا منور سلطان ندوی،
محمد شاکر ندوی، عرفان الحسن صاحب، مولانا امتیاز ندوی، مفتی اکرام ندوی، عارف
نثار، صبا عارف، خرم سجاد، کامران احمد ، حافظ رضوان احمد اشاعتی، محمد خطیب، محمد نقیب، محمد آصف، نواز شاہد، زیدی، اہل اللہ، رضا ء الدین، اسد اللہ، محمد دانش، ابو اللیث، شفی احمد، سیفی، محمد
شاکر (اور میں خود کو کیوں نہ شامل کروں!) مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں، اس یقیں
کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرونگا کہ یہ
خوشبو اسی طرح پھیلتی رہے گی، پھول مہکتے رہیں گے، چاندنی چمکتی رہے گی، جگنو
جگمگاتے رہیں گے، اور پروانے نثار ہوتے رہیں گے، اور اسی طرح اور اس سے بہتر
پروگراموں کے ساتھ ہم آپ تک پہونچتے رہیں
گے اس جذبے کے ساتھ:
شمیمِ زلف و گلِ تر نہیں تو کچھ بھی نہیں
دماغِ عشق معطر نہیں تو کچھ بھی نہیں
غم حیات بجا ہے،
مگر غمِ جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
رہِ وفا میں دل و جاں نثار کر جائیں
اگر یہ اپنا مقدر نہیں تو کچھ بھی نہیں
No comments:
Post a Comment