Welcome to 'Students for Academic Excellence', Ekhatha

You are welcome to the initiative. We would request to joins us as members and start posting your ideas, suggestions and anything which is informative and related to education.
Please come forward to extend you help and guidance to those who badly need them.
Also, we will request our student community to share with us their aims, aspirations, needs and problems, so that we can help them guide to their destinations.

S4Xellence Team.

Saturday, 22 December 2012

An Arabic Short Story of Mikhail Nouaima Translated in Urdu




دو باغی
ثائران: میخائیل نعیمہ (ترجمہ: محمد علی اختر)
گیسوئے شب موسمِ بہار کی عطر بیزیوں سے مشکبار تھی،  فضا چاندنی میں نہائی ہوئی تھی اور پورے ماحول پر سکوت کی چادر پھیلی تھی، جسکے نیچے  دھڑکتے دل خصوصا عاشقوں کے دل مصروفِ رازونیاز تھے۔۔ مگر ۔۔ یونیورسیٹی کے پارک میں چنبیلی کی بھینی بھینی خوشبوں کے تلے بیٹھے دو دھڑکتے دل ـ ایک نوجوان اور ایک دو شیزہ  ـ  اس ماحول کا حصہ  نہیں لگ رہے تھے۔ ان کے درمیان گلہائے عشق و محبت کا کوئی تبادلہ نہیں ہو رہا تھا۔ یہ دونوں آرٹس کالج کے آخری سال کے اسٹوڈنٹس تھے۔  اُن کے درمیان چھائی خاموشی اُن عاشقو ں کی خاموشی سے بالکل الگ تھی، قوتِ گویائی اچانک جن کا ساتھ چھوڑ جائے، یا محبت کی دیوی جن سے روٹھ جائے۔ اُن کی خاموشیوں کا سلسلہ دراز ہی ہوتا جارہا تھا۔ گاہے بگاہے دوشیزہ کی کھنکار بھی اِس خاموشی کے سلسہ کو توڑنے میں ناکام ثابت ہوئی تھی۔ نوجوان کی آنکھیں زمین سے گڑی ہوئی تھیں، اور اسکے ہونٹوں پر جیسے تالے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔  اس بوریت بھری خاموشی سے بالآخر دوشیزہ تنگ آگئی، اس نے  درمیان میں بینچ پہ رکھی کتاب کو اپنی گود میں رکھا اور نوجوان کو جھنجھوڑا:
‘‘بالآخر! ۔۔۔۔۔   کیا اب بھی کچھ نہیں بولوگے فؤاد؟’’
فؤاد اچھل پڑا جیسے اب تک وہ گہری نیند میں تھا۔ اور کسی نے اسے زور زور سے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔
‘‘ہاں۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں ثریا!  لیکن ایسا لگتا ہے جیسے میرے منہ میں میری زبان کی جگہ کسی نے لوہے کا ٹکڑا رکھ دیا ہو’’ اس نے زمین سے نگاہیں ہٹائے بغیر کپکپاتی آواز میں بڑی مشکل سے جواب دیا۔
‘‘ لیکن کیوں؟ تم ہی نے تو مجھے یہاں بلایا تھا کہ تم مجھے کوئی اہم بات بتانے والے ہو۔ پھر کون سی اہم بات ہے وہ؟ کیا وہ اتنی خوفناک بات ہے کہ تم اس کے بارے میں بات بھی کرنے سے ڈر رہے ہو؟’’
‘‘ہاں ثریا کچھ ایسی ہی بات ہے۔ اور شرم سے میری زبان گنگ ہے’’۔
‘‘شرم سے؟   لیکن کس سے شرم؟’’
‘‘ تم سے ثریا ۔۔۔  تم سے،  اپنے آپ سے’’۔
‘‘ مجھ سے؟  اچھا!۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے آج تم پہلی بار مجھ سے مل رہے ہو۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے بچپن میں گاؤں کی گلیوں میں ہم کبھی ساتھ ساتھ کھیلٰے  ہی نہیں۔ گویا ہم ایک ساتھ،  ایک ہی یونیورسیٹی میں  ایک ہی کلاس میں نہیں پڑھتے!!’’  
‘‘کاش کہ ہم بڑے نہ ہوئے ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔  کاش کہ میں ۔۔۔  بڑا نہیں ہوا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ بلکہ کاش کہ میں پیدا ہی نہیں ہوا ہوتا۔’’
‘‘فؤاد تم کیا ناسمجھی کی باتیں کر رہے ہو؟  کل ہی تم بڑے  بڑے خوابوں کے محل بنا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کو خیالوں کے گل و لالہ سے  سجا رہے تھے، اور آج تمہیں کیا ہو گیا ہے؟’’
‘‘کل میں ایک انسان تھا’’
‘‘اور آج؟’’
‘‘ اور آج ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج میں ۔۔۔۔۔۔’’
ثریا کو ایسا لگا جیسے اسکے پہلو میں بیٹھے نوجوان کے حلق میں تھوک کا گولا اٹک گیا ہو ۔۔۔ بلکہ آنسوؤں کا پھندہ پڑگیا ہو۔
ثریا کا دل بیٹھنے لگا تھا۔۔۔۔ اس نے چاہا کہ کچھ ایسا کرے جس سے فؤاد کی پریشانی کچھ کم ہو جائے۔۔۔ اس کی گھٹن کم ہو جائے ۔۔۔  لیکن الفاظ  نےاس کا ساتھ نہیں دیا   تو   اس نے فؤاد کی ہتھیلی کو اپنی ہتھیلی میں  رکھ لیا  اور  اسے گرم جوشی کے سے دبانے لگی۔
‘‘ فؤاد کیا تم رو رہے ہے؟’’،       خاموشی کے بوجھل لمحات سے باہر آتے ہوئے ثریا نے پوچھا۔
‘‘نہیں ۔۔۔ لیکن میں اسی لائق ہوں کہ روؤں’’،  اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔
‘‘میں نے تمہیں کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا ، اور نہ ہی کبھی تمہیں اتنا کمزور دل سمجھا تھا’’۔
‘‘ ہاں،   اور نہ ہی تم نے کبھی مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔   مجھے چور سمجھا تھا’’۔
یہ آخری جملہ ثریا پر جیسے بجلی کی طرح گرا ہو۔  اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔  اسے  کوئی شک نہیں ہوتا  کہ فؤاد مذاق کر رہا ہے،  اگر وہ اس کے چہرے پر، اس کی آواز میں اور اس کی ایک ایک حرکت سے عیاں اضطراب کو نہیں دیکھتی۔ کیا یہ نوجوان  چور ہو سکتا ہے جو بچپن سے نہ صرف یتیمی اور محتاجگی سے بر سرِ پیکار رہا ہے، بلکہ   انہیں اپنے حوصلے، لگن ، انتھک کوشش اور فولادی ارادے سے  شکست دیکر اس نے ابتدائی تعلیم سے لیکر یونیورسیٹی کی تعلیم تک اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ ہاں اس کی والدہ  نے امیروں کے گھروں  میں کھانا بناکر اور برتن مانجھ کر   اپنی گاڑھی کمائی  سے  اس کی پوری مدد کی تھی۔ اس کی ماں کو مشکل سے مشکل اور  حقیر سے حقیر کام کرنے میں بھی کوئی جھجھک نہیں تھی جب تک اسے  اپنے بیٹے کی تعلیم کی لئے پیسوں کی ضرورت تھی۔ لیکن پچھلے دو سالوں سے وہ صاحبِ فراش تھی، اور فؤاد اپنے  اور اپنی ماں  کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا خرچ  خود ہی برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ اور اب وہ اپنی تعلیم کے آخری سال میں تھا۔   گریجوٹ کی ڈگری بس اس سے چند ہی قدم دور تھی۔ فؤاد پڑھائی میں ممتاز تھا۔ اس کے تمام اساتذہ اور سارے دوست  اس کی روشن مستقبل کی پیشنگوئی کرتے تھے، کیونکہ  وہ بہت باصلاحیت اور بہت سی لیاقتوں کا حامل تھا۔ اخلاق و عادات میں بھی وہ بے مثال تھا، خاص طور سے اپنی خودداری کے لئے وہ بہت مشہور تھا۔ تنگدستی کے باوجود  کبھی کسی سے اس نے ایک روپیہ  قرض نہیں لیا تھا۔ نہ ہی کبھی کسی سے کوئی مدد مانگی تھی۔
ثریا خود بچپن سے اسے جانتی تھی۔ اس کے حالات سے بڑی حد تک واقف تھی۔ فؤاد کے دوستوں میں وہ سب سے زیادہ اس کی ذہانت، بلند خیالی، اخلاقی مضبوطی اور پاکیزگی  کی معترف تھی۔ بارہا  اس نے  مختلف موضوعات پر  اس سے گفتگو  کی تھی، اور ہر بار وہ اس  کو اپنی قوتِ  استدلال، اندازِ بیاں اور گیرائی فکر سے حیران کر دیتا تھا۔ ثریا کو یاد تھا ایک بار  اس نے کہا تھا : میں  اللہ کا شکر گذار ہوں کہ اس نے مجھے  امیر کے بجائے غریب پیدا کیا ۔ غربت بجائے خورد     وجہِ عار نہیں ہے۔ اصل عار تو غربت اور محتاجگی کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا    ہے، عار ذلت اور بے بسی میں ہے، اور غربت ذلت نہیں ہے۔ رہی بات امیروں کی، تو  امیروں کا سب سے بدنما چہرہ ان کی نخوت ،تکبر  اور عادتِ نمائش ہے۔ نخوت زدہ دولتمند  خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودتا ہے، کیونکہ  اُن کے تئیں محروموں اور غریبوں کے دلوں میں غصہ، حسد اور کینے کی جو چنگاری سلگتی ہے وہ جلد ہی بڑے انقلابوں اور بغاوتوں کے شعلوں میں بھڑک اٹھتی ہے۔
ثریا کے ذہن میں بہت ساری یادوں کی تصویریں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔ لیکن اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس تصویر سے ، یا تصویروں کے کس البم سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ یہ نوجوان جو اس کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے کبھی چوری بھی کر سکتا ہے، چاہے حالات کیسے بھی جان گسل اور ضرورتیں کتنی بھی سخت ہوں۔ نہیں! یہ مشکل ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ ناممکن ہے۔!!  یہی سوچ کر اس نے ایک  زور کا قہقہہ لگایا اور فؤاد کے کندھے پر ایک دھپ رسید کی۔
‘‘مبارک ہو اے چوروں کے سردار! بس ذرا اب یہ بتا دیجئے کہ  کون سی ایسی بیش قیمت پر آپ نے ہاتھ صاف کیا ہے جو آپ کو اس لقب کا اہل بناتی ہے۔ ذرا جلدی بتائیے اور ثبوت پیش کیجئے’’۔
لیکن ثریا نے  اپنی مذاق پورا بھی نہیں کیا تھا کہ اسے شرمندہ ہونا پڑا۔۔۔۔۔ کاش کہ وہ اپنی بات واپس لے سکتی۔۔۔۔ اس نے دیکھا کہ فؤاد  بری طرح لزرہا تھا۔۔۔۔ ایسے پھڑک رہا تھا جیسے کوئی گوریا ذبح کے وقت۔
فؤاد لرزتا رہا۔۔۔۔ اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چلنے لگی تھی۔۔۔ ثریا کو یہ ڈر ہونے لگا تھا کہ کہیں  کوئی ناگہانی نہ ہوجائے۔ ثریا کی زبان بھی گنگ ہو گئی تھی، اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے اور کیا کرے۔
نہ جانے کتنا وقت گذرگیا لیکن ان کے درمیان  ایک ہولناک خاموشی چھائی رہی۔ چاند  کبھی سفید بادلوں کی چادر اوڑھ لیتا، اور کبھی رخ سے بادلوں کی نقاب اتار دیتا، گویا وہ  زمین کے ساتھ بچوں کی طرح آنکھ مچولی کھیل رہا ہو۔ تبھی فؤاد نے جیب میں ہاتھ ڈالا، کوئی چمکدار سی چیز نکالی اور جلدی سے اسے ثریا کی گود میں ڈالدیا۔ جیسے  وہ کوئی سانپ یا بچھو کو اپنے سے الگ کر رہا ہو۔
‘‘لو یہ ہے ثبوت تمہارے سامنے’’۔
ثریا نے اس چمکتی شئے کو اٹھایا   اور چاند کی روشنی میں اس کا معائنہ کرنے لگی۔ وہ خالص سونے کا  خوبصورت ہیروں اور نگینوں سے جڑا ایک کنگن تھا۔ کتنی ہی دیر تک الٹ پلٹ کر وہ بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔  اس کی خوبصورتی اور چمک سے ثریا مبہوت لگ رہی تھی۔ لیکن حقیقت میں وہ بالکل خالی الذہن تھی، اور خالی الذہنی میں سب حرکتیں اس سے صادر ہو رہی تھیں، نہ تو اس کی نگاہیں اس کنگن پر تھی، اور  نہ ہی وہ اس کنگن کے بارے میں کچھ سوچ رہی تھی۔ پھر اس نے اس کنگن کو اپنی  کلائی پر چڑھالیا، اسے کلائی پر ایک دو بار گھمایا اور  بولی:
‘‘خوبصورت ہے۔۔۔۔۔ انتہائی خوبصورت۔   اگر تم نے یہ چرایا ہے اور ابھی تم چوری کا  ابجد سیکھ رہے ہو۔ تو پھر اس وقت کا کیا کہنا ، جب تم اس میدان کے پختہ کھلاڑی ہو گے؟     اب ذرا بتاؤ تو تم نے یہ کیسے اور کہاں سے حاصل کیا؟’’
ثریا نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ فؤاد اچھل کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، تھوڑا سا جھکا اور   پھرایسے شروع ہو گیا جیسے وہ پاگل کی طرح بڑبڑا رہا  ہو یا جیسے وہ ایک ہی سانس میں پوری کہانی ختم کر دینا چاہتا ہو،  ہاں مگر دھیمی آواز میں، جیسے اسے ڈر ہو کہ ان کے آس پاس چنبیلی  بھی انہی کے طرف کان لگائے  بیٹھے ہوں۔
‘‘میں برباد ہو گیا ثریا۔۔۔۔۔۔ میں ہمیشہ کے لئے برباد ہو گیا۔ ۔۔۔۔۔ تم میرے منہ پر تھوک دو۔۔۔۔ مجھے گالیاں دو۔۔۔۔۔ مجھ پر تھپڑ برساؤ۔۔۔۔۔  لاتیں رسید کرو۔۔۔۔۔ لیکن خدارا! میری بات سن لو۔۔۔۔ اگر تم نہیں، تو میں کس  سے اعترافِ جرم کرونگا؟۔۔۔۔۔۔ دولت نے تمہیں نہیں بگاڑا۔۔۔۔  لیکن غربت نے مجھے رسوا کردیا۔۔۔۔ میرا سر نیچا کردیا  جب کہ میں نے سمجھا تھا کہ میں نے اس کا سر خاک میں ملادیا۔۔۔۔۔’’
 ‘‘مجھے یونیورسیٹی کی فیس ادا کرنی ہے، اور تم جانتی ہو کہ میری والدہ بھی دو سالوں سے بستر سے لگی ہیں۔  میرے پاس ان کی دوا کے بھی پیسے نہیں ہیں ، نہ ہی ان کے لئے  ڈاکٹر کی فیس اور نہ ان کی تیمارداری کے واسطے کسی نرس کی اجرت۔ میں ہی ان کی دوا ہوں، ان کا ڈاکٹر ہوں اور ان کا تیماردار بھی۔ میری ماں کا جسم زخموں سے چور ہے۔۔۔ زخم کے سڑنے کی وجہ سے ان میں کیڑے پیدا  ہو گئے ہیں جو دھیرے دھیرے انہیں زندہ کھائے جارہے ہیں۔ مجھے ایسا لگنے لگا   وہ کیڑے ان کا نہیں بلکہ میرا گوشت نوچ رہے ہوں’’
میری عقل ماؤف ہو گئی۔ دنیا میری نظروں میں تاریک ہو گئی۔ میں نے فیصلہ کر لیاکہ میں اپنی خودداری کو خود اپنے پاؤوں تلے روند ڈالوں گا، اُس ماں کے لئے جس نے میرے لئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔ میں کچھ قرض  لے لیتا ہوں۔۔ کچھ ہی دنوں میں مجھے ڈگری ملنے والی ہے اور پھر ضرور کوئی نہ کوئی نوکری بھی مل جائے گی اور میں جلد ہی قرض کا بوجھ اتار پاؤوں گا۔ میں نے سوچا کہ فرید صرصور # کے پاس چلا جاؤوں۔  وہ ایک لاابالی اور فضول خرچ قسم کا لڑکا ہے، اور اسے اپنے باپ سے وراثت میں بے انتہا دولت ملی ہے۔ میں اسے جانتا ہوں اور وہ بھی  مجھ سے واقف ہے۔ میرے اس پر کچھ احسانات بھی ہیں۔ پڑھائی کے دنوں میں وہ اکثر فیل ہوجاتاتھا۔  اور میں  پاس ہونے کے لئے پڑھائی میں اس کی خصوصی مدد کیاکر تا تھا۔۔۔ شاید اگر میں نہ ہوتا تو وہ ڈگری بھی نہیں لے پاتا۔۔ ثریا تم بھی تو  فرید صرصور کو جانتی ہو؟’’
‘‘ہاں۔ میں جانتی ہوں’’، ثریا نے اپنی آواز اور اعصا ب  کی کپکپی پر  بمشکل قابو پاتے ہوئے کہا۔ اور پھر پوچھا:
‘‘پھر اس نے تمہارا استقبال کس طرح کیا؟ تمہیں کیا جواب دیا؟’’
‘‘جب میں اس کے پاس گیا،  وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ پوکر  کھیل رہا تھا۔ اس نے مجھ سے ملنے کے لئے پوکر کھیلنا نہیں چھوڑا۔ بلکہ مجھے انتظار کرنے کے لئے کہا، اور میں انتظار کرنے  لگا۔ ۔۔ جب وہ وہسکی کی چند چسکیاں  اور میوہ جات کا مزہ لینے کے لئے کچھ دیر  کو  کھیل سے فارغ ہوا میں نے  اسے اِس کنگن کو اپنی جیب سے نکالتے اور اسے اپنے دوستوں کو دکھاتے ہوئے دیکھا تاکہ وہ اُن سے اُس  کی خوبصورتی کی داد وصول کرے۔ وہ زیورات کے انتخاب میں اپنے حسنِ ذوق کو فخریہ انداز میں بیان کر رہا تھا۔ میں نے اسے کہتے سنا کہ وہ کنگن اس نے اپنی منگیتر کو تحفے میں دینے کے لئے خریدا  ہے۔ اس نے ۲۵ سونے کے سکوں کے عوض اسے خریدا تھا۔ اس کا رادہ تھا کہ وہ اسی رات  ۔ یعنی گذشتہ رات ۔  “سمیرامیس “کلب کی ڈانس پارٹی میں اپنی منگیتر کو سرپرائز گفٹ کے طور پر پیش کرےگاَ’’۔
‘‘یہ بتاؤ کہ آخر اس سے تمہیں ملا کیا ؟ جب تم نے اس سے ادھار مانگے تو اس نے کیا کہا؟’’،     ثریا نے فؤاد کے سلسلۂ کلام کو کاٹتے ہوئے پوچھا۔
‘‘جب آخر کار اس نے مجھ سے میری ضرورت پوچھنے کی زحمت کی اور میں نے اسے اس اپنی ماں کی حالتِ زار کے بارے میں بتایا۔ تو اس نے پوری ڈھٹائی  کے ساتھ سفاکیت بھرے انداز میں کہا’’:
‘‘کیا حرج ہے اگر  کیڑے تمہاری ماں کا گوشت نوچ رہے ہیں اور ابھی وہ زندہ  ہے؟  وہ ایک دھوبن ہی تو ہے؟  ’’
اس نے اسی بدکلامی پر بس نہیں کیا بلکہ مزید دریدہ دہنی پر اتر آیاَ:
‘‘ایک دھوبن کے بیٹے کو یونیورسیٹی کی ڈگری کی کیا ضرورت ہے؟ جاؤ کوئی کام دھام کرو جس سے  تمہارا گذر بسر  ہو جائے۔  اپنی اوقات اور حیثیت  سے اوپر اچھلنے کی کوشش مت کرو۔ مانگنے اور ہاتھ پھیلانے سے تمہارے لئے یہ بہتر ہوگا’’۔
‘‘یہ ۔۔۔۔ ایسا۔۔۔۔۔ ایسا اس نے جواب دیا؟ حد ہوگئی بدزبانی اور گھٹیا پن کی!!’’  ثریا بھڑک اٹھی۔۔۔۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔۔۔ طیش میں وہ اپنے نچلے ہونٹ کو بےدردی سے کچلنے لگی۔۔۔۔  ساتھ ہی بے خیالی میں وہ کنگن کو اپنی کلائی میں گھمائے بھی جارہی تھی۔۔۔ لیکن فؤاد کو اس سب کی  خبر کہاں تھی۔۔۔ اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھا:
‘‘میں وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔۔۔  میرے پورے وجود پر لرزہ طاری تھا۔۔۔ میرے اندر کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا تھا۔۔۔۔  اگر میرے بس میں ہوتا  کہ میں اس پوری دنیا، زمیں و آسمان کو ایک ٹھوکر یا ایک پھونک میں اڑا  سکتا۔ تو میں کر گذرتا۔۔۔۔اور  میں کیوں ایسا نہیں کرتا؟ ۔۔۔۔  اس پھیلی زمیں اور اس وسیع آسمان سے میرا کیا فائدہ تھا؟  ؟میرے لئے ان میں کیا اچھائی یا بھلائی تھی؟؟ ؟  بلکہ انہوں نے مجھ سے ہر اچھائی، ہر خیر کو دور رکھا تھا۔۔۔۔ کیا بھلائی ہے ایسی زندگی میں۔۔۔۔ ایسی دنیا میں۔۔ جہاں  زاغ و زغن کو شاہین و عقاب کا درجہ ملے ، اور شاہینوں کی قسمت میں جھینگروں کی بھی حیثیت نہ ہو؟؟؟’’
‘‘لیکن کیا میری ماں ایسے ہی آنکھیں کھولے کھولے ہی مرجائے گی  جب تک میری رگوں میں خون کا ایک قطرہ بھی ہے؟  ہر گز نہیں۔۔۔  میں انہیں مرنے نہیں دونگا۔۔۔۔  میں ان کے لئے ڈاکٹر لے کر آؤونگا۔ ۔۔۔ میں ان کی دوا لےکر آؤونگا۔۔۔۔۔میں ان کے لئے پیسے لے کر آؤونگا ۔۔۔۔۔  میں نے اپنی خودداری کو داؤ پر لگا۔۔۔۔ میں اسے ہار گیا۔۔۔۔ میں پستی میں اترا۔۔۔۔۔ اور میں اب اس پستی کی انتہا تک جاؤونگا۔۔۔۔ اور۔۔۔ اس طرح  ۔۔۔۔ فؤاد ۔۔۔  چور بن گیا۔۔۔۔ اور یہ کنگن اس کی چوری کی ابتدا ہے’’۔
فؤاد تھوڑی دیر کے لئے رکا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت اور طاقت نہیں بچی تھی کہ وہ ثریا کو بتاتا کہ کیسے اس نے ایک دیہاتی کا بھیس بنایا ، اور رات کے وقت فرید صرصور کے راستے میں گھات لگا کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ کیسے اس نے اس کی کار رکوائی اور کیسے ایک کھلونہ بندوق دکھا کر اس نے اس کی جیب سے کنگن چھینا،  اور پھر پوری رفتار سے وہاں سے بھاگ نکلا۔
فؤاد کی طویل خاموشی سے ثریا نے اس کی جھجھک محسوس کرلی ،  اس لئے اسے مزید  بولنے پر مجبور نہیں کیا، اور بڑی نرمی سے کہا:
‘‘بس کرو فؤاد۔ ۔۔ میں سب کچھ سمجھ گئی۔۔۔۔۔ مزید  کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ بس یہ بتاؤ اب اس کنگن کا کیا کروگے؟ کیا تم یہ چاہتے ہو میں  تم سے یہ خرید لوں؟’’
‘‘نہیں  نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ کیا یہ کافی نہیں  کہ میں نے اپنے ہاتھ اس سے گندے کیے۔۔۔۔ اب کیا میں تمہارے ہاتھ بھی اس سے گندا کروں؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ ہزار بار نہیں۔۔۔۔’’
‘‘اس کنگن کو دیکھ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔  ۔ اس کو چھونے سے میرے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ ۔۔ اس ایک ایک حرکت کو یاد کرکے میرا دل دہل جاتا ہے جو میں نے اس کو حاصل کرنے کے لئے کی۔۔۔۔ بس میں تم سے صرف اتنا چاہتا ہوں    ـ   اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو   ـ کہ تم اس کنگن کو اس کے مالک کو لوٹادو۔۔۔  کیونکہ تم اسے جانتی ہو۔  اور اگر چاہو تو اسے وہ سب کچھ بتا سکتی ہو جو تم نے مجھ سے سنا۔ تم اسے بتا سکتی ہو کہ فؤاد بلندی سے پستی کی طرف پھسل گیا تھا۔۔ لیکن وہ ہمیشہ اس پستی میں نہیں رہے گا۔۔۔۔ چاہے مر جائے فؤاد کی ماں۔۔۔۔۔ اور مر جائے فؤاد۔۔۔۔ لیکن وہ دونوں باعزت مریں گے۔۔۔ فؤاد چور بنکر نہیں مرے گا۔۔۔ بلکہ اس روئے زمین کی ہر برائی، ہر ظلم اور شر کے خلاف ایک باغی بنکر مریگا۔ ۔۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا ہے کہ فؤاد مرے گا تو صرف باغی اور انقلابی بن کر۔۔۔۔۔۔ اس روئے زمین پر ہمیشہ اِن جھینگروں اور زاغ وزغن کی ہی حکومت نہیں رہے گی۔ ہمارا اور ہمارے جیسے لوگوں کا بھی اس  کی خیر اور اس کے ثمرات میں حصہ ہوگا۔۔۔ اور ہم اپنا حصہ ان بد نیتوں اور آسودہ حالوں کے لئے ہر گز نہیں چھوڑیں گے’’۔
‘‘فکر مت کرو فؤاد ۔۔۔۔۔ پر سکون ہو جاؤ۔۔۔۔ ہر پستی کے بعد بلندی ہے ۔۔۔۔ ہر رات کے بعد روشنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی تم سے ایک راز کی بات  بتانی ہے۔۔ تم سنو گے تو حیران ہو جاؤگے’’۔
‘‘اچھا۔۔۔ تم  بھی اپنا دل ہلکا کرلو ۔۔۔۔ تمہارا راز میرے پاس بھی راز ہی رہے گا’’۔
‘‘جانتے ہو یہ کنگن کس کی ہے؟’’
‘‘کس کی؟’’
‘‘میری۔۔۔ لیکن آج رات ہی میں اسے فرید صرصور کو لوٹا دونگی’’۔
‘‘تمہاری؟ ۔۔۔۔ کیا تمہاری ثریا؟؟ لیکن کیسے؟’’ فؤاد حیران ہوا تھا۔
‘‘ میں فرید صرصور کی منگیتر ہوں’’۔ ثریا نے جیسے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
‘‘تم اس کی منگیتر ہو؟ مذاق مت کرو!’’ فوأد کو یقین نہیں آیا تھا۔
‘‘بلکہ میں اس کی منگیتر تھی، اسی وقت تک جب میں نے تم سے  اس کی ذلیل حرکتوں کے بارے میں سنا’’، ثریا نے وضاحت کی۔
‘‘ثریا! اے کاش زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا!!  فؤاد  کا سر مزید شرمندگی سے جھک گیا تھا۔
تمہیں نہیں،   زمین فرید صرصور جیسے جھینگروں کو نگلے گی! ثریا نے پورے  یقین اور خلوص سے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دنوں پہلے، ایک علاقائی اخبار میں، ایک چھوٹی سی خبر میری نظروں سے گذری، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پولیس نے فؤاد اور  اس کی بیوی ثریا کو ایسے خفیہ پرچے بانٹنے کے جرم میں گرفتار کرلیا  ہے جن سے ملک کی سلامتی  اور امن کو خطرہ تھا۔  سلامتی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ  ملک کی سلامتی کے لئے سب سے خطرناک تخریبی عناصر میں اُن کا شمار تھا۔

Tuesday, 18 December 2012

Inauguration Ceremony of the Most Awaited Book on Ekhatha, "Ekhata w Atraf or Yahan ki Do Namwer Shakhsiyyat" by Monawwer Sultan Nadwi




This is the beautiful cover of the Book on Ekhatha which we all  impatiently awaited and  looked forward to.  The people of Ekhata were eager to see, know and read the contents of the book with the mixed feelings of joy, excitement and some anxiousness. The book was finally released and inaugurated on the occasion of Eidul Adha, in December, 2012, after going through all the difficulties and hardships; mental, physical or financial, an author has to face in a community which I will not hesitate to term as 'dead'; dead in its thought and practice; engulfed its  own self-devised fake prestige and self-conceived respect; tattered with its moral depravity, cunning absurd mentality of viciousness towards anything good in others; and hampered with disability or incapacity for  appreciation, respect and support for skills, creativity and constructive efforts.

Nevertheless, the book came fulfilling the dreams of many of Ekhatha's people. Ekhatha cherished a long history of cultural, educational and political spring; the period which was marked by the sincerity, benevolence, educational progress, cultural development and political awareness. It was a long felt desire as well as necessity to record that cherished and coveted educational, cultural, political and mental development and progress of Ekhatha; to register the sincere efforts and courageous endeavors of its sons who were the light-bearers of that progress and to preserve and save the bright names that shone like stars in its sky. 
The author of this book 'Monawwer Sultan Nadwi Saheb' is highly commendable and praiseworthy. I would tender my heartiest congratulations and thanks to him to take up this very tough job and bring about this highly laudable book which will surely be regarded as a golden part of the history of Ekhatha. 
A quick look at the book instantly draws the attention of a reader to the painstaking hard work and diligence taken by the author in collecting the hard-to-obtain data and the prodigious scattered information the book contains. Gathering data from so many sources and collecting information from so many mouths and memories are certainly not an easy task and demonstrate the arduous efforts put forth by the author. The book definitely realizes the long cherished dream of Ekhatha, of having a recorded account of its glorious past. The people of Ekhata must feel proud of this achievement; for which they are certainly indebted to Monawwer Sultan Nadwi and owe appreciation and thanks to him.
The book is undoubtedly admirable and deserves all the praise and appreciation for its prodigious contents, elegant language, refined style and well-coordinated and cohesive presentation of information. The book is praiseworthy for its range of information as it covers almost all the important and mentionable events, social, cultural and political occurrences, changes, developments, organizations, societies and programs, in addition to including personalities and people of significance in all the fields.Another important feature of the book is that it not only covers the facts but also tries to penetrate into the elements of those facts; explain the reasons behind them.

The book being the first effort and in view of the difficulty in the collection of information, may seem to some people, lacking some information or wanting in some areas. Similarly, some people may not subscribe to the ideas and opinions expressed in the book by the author, especially the way of analysis or reasoning of some of the facts, events and incidents.
I too, do not agree to some of the reasons presented by the author in the explanation of some of the historical facts. But, this certainly does not diminish the importance and significance of the book. It is natural not to agree to some of the ideas, opinions and reason of others, provided this disagreement is based on logical thinking and on other concrete and reasonable explanations; and not merely because of bigotry and unjust discrimination. But it is totally unjust and unfair to reject the facts and discredit the book because of the individual disagreements and difference from the author's perspective.
I will request all the literate people of Ekhatha to read this book with an open mind and logical approach, free from any preconceived partiality and intolerance and above all with sincerity. You may differ from the author in some places, but you will surely enjoy reading and will feel proud of the richness of your glorious past and would like to thank the author for his great effort and extraordinary work.

Here are some pics from the Inauguration ceremony.










To download a soft copy of the book, go to the following link.
http://msultannadwi.blogspot.in/2012/10/blog-post_18.html?spref=fb